کیوپڈ اور سائیکی (ازقلم: صفیہ عمران، ساہیوال)
کیوپڈ نے کندھا تھپتھایا ہاتھ چھڑایا چٹکی بجائی اور غائب ہوگیا ۔

کیوپڈ اور سائیکی (ازقلم: صفیہ عمران، ساہیوال)
موسم بہت خوشگوار تھا اور سائیکی چھت پر چاندنی کو تک رہی تھی اور ہیولا نمودار ہوا ۔
ارے کیوپڈ ایروس تم ؟
ہاں سائیکی میں!
کیا ہورہا ہے ؟
وہ دیکھو چاند یہ منظر بہت فینسی کرتا ہے ۔
تم کہو تو ہواؤں میں گرہ باندھ دوں پتھروں سے پانی نچوڑ دوں
آئو میں تمہیں لے کر چلتا ہوں چوتھے آسمان پہ ۔۔۔۔
سائیکی مسکرائی کیوپڈ تم مجھے اس وقت اسٹوپڈ لگ رہے ہو ۔
کیا کیوپڈ ایروس کا تیر کبھی خطا ہوا ؟
کیوپڈ نے سائیکی کا ہاتھ تھاما!!
وادیوں ، جھیلوں ، پہاڑوں ، جھرنوں ، آبشاروں، سمندروں ، جزیروں سے گزرتے ہوئے گم نام ستاروں کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے سبک رفتار سی ہوا کا ہاتھ تھامے بادلوں کو سیڑھیاں بناتے ہوئے کہیں سے کہیں جا نکلا ۔
ایسے مقام پر جہاں ستارے گرد راہ تھے کہکشائیں بکھری تھیں ۔ یہاں سے دودھیا چاندنی ملگجے اندھیرے اور دنیا بہت دور سے چھوٹی سی دیکھائی دیتی ہر طرف وسیع و عریض خلا ۔
یہ تم مجھے کہاں لے آئے ۔
یہاں نہ فضا ہے ، بادل، آسمان ، زمین نہ پاتال کچھ بھی نہیں!!!
یہاں کچھ بھی نہی ہے سائیکی یہاں پر ہر جگہ
” میں اور تم نہیں” ،
صرف تم ہو ، صرف تم!!!
کیوپڈ نے کندھا تھپتھایا ہاتھ چھڑایا چٹکی بجائی اور غائب ہوگیا ۔