خواب کا مجرم (ازقلم: عرفان حیدر)
فرہاد صبح اٹھا تو اس کا جسم پیسنے میں شربودار ہوچکا تھا۔

خواب کا مجرم (ازقلم: عرفان حیدر)
وہ ہاتھ میں خنجر لیے کمرے میں موجود پلنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ اس کے خنجر پر خون پہلے سے جما ہوا تھا۔ پلنگ کے قریب پہنچتے ہی وہ خنجر ہوا میں بلند کرتا ہے اور اگلے لمحے وہ خنجر کو پلنگ پر لیٹے شخص کے سینے میں پیوست کردیتا ہے۔ روح لرزا دینے والی چیخ بلند ہوتی ہے اور پلنگ پر لیٹا شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
فرہاد صبح اٹھا تو اس کا جسم پیسنے میں شربودار ہوچکا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن خلاف معمول کافی تیز تھی۔ وہ بھاگا بھاگا ٹی وی لان میں پہنچا اور ٹی ون کرکے خبریں سننے لگا۔
”عثمان رواں ماہ ملک امجد کی فیملی کا قتل ہونے والا تیسرا فرد ہے۔ اس سے پہلے ملک امجد کے دو بیٹے سعید اور حسن کا بھی پراسرار قتل ہوچکا ہے۔ پولیس اب تک قاتل کا کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔ عثمان کا قتل بھی رات کے وقت اسی کے کمرے میں ہوا ہے۔“ یہ خبر سنتے ہی فرہاد کی بے چینی میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کی آنکھوں کی نمی اس کی بے بسی کا ثبوت تھی۔
فرہاد کی جاب ایک ماہ قبل لاہور ٹرانسفر ہوگئی تھی لہٰذا وہ روزگار کے سلسلے میں لاہور آ بسا تھا۔ اس کا خاندان کراچی میں تھا اور یہاں فرہاد اکیلا ایک فلیٹ پر رہتا تھا۔ گھر سے دور اکیلے رہنا اس کے لیے ایک چیلنج تھا مگر اسے ایسا ہر صورت کرنا ہی تھا۔ اس لیے جاب ٹرانسفر ہونے کے اگلے ہی دن اس نے لاہور آکر دفتر جوائن کرلیا۔ وہ ایک ماہر اور تجربہ کار کمپیوٹر آپریٹر تھا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ منسلک تھا۔
فلیٹ میں پہلی ہی رات کو اس کے ساتھ خوفناک واقعہ رونما ہوگیا۔ وہ حسب معمول دس بجے سوگیا تھا۔ سونے کے کچھ ہی دیر بعد وہ اپنا دم گھٹتا محسوس کرتا ہے اور فوراً اٹھ جاتا ہے۔ وہ ایک بند کمرے میں موجود تھا جہاں روشنی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس نے حرکت کی کوشش کی تھی، لیکن یہ جان کر اس کا حلق کانٹے دار ہوگیا کہ اس کے ہاتھوں اور پیروں میں فرش سے منسلک کڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ اچانک اس کے پیروں کے قریب ایک موم بتی روشن ہوتی ہے۔ وہ گردن اٹھا کر اوپر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سامنے کوئی خود کو سرخ چادر میں چھپائے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئیں۔
”تم میرا بدلہ لوگے۔“ وہ خالص زنانہ آواز تھی جس میں وحشت اور پراسراریت کے آثار نمایاں تھے۔
”ککیا چاہتی ہوتم؟“ اس کی زبان نے بمشکل یہ الفاظ ادا کیے تھے۔
”ملک جبران سے بدلہ اس بدذات نے میرے شوہر نرمان سنگھ کا قتل کیا تھا۔ اور اب تم اس کے پوتے ملک امجد اور اس کے خاندان کو عبرت ناک موت مارو گے۔“ اس نے اپنے مخصوص لرزا دینے والی آواز میں کہا۔
”ممگر میں۔ م میں کیوں؟ میں کسی بے گناہ کو نہیں مار سکتا۔“ فرہاد نے اپنے خوف پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ”کرنا تو تمھیں پڑے گا ورنہ ورنہ میں تمھارے خاندان کا نام و نشان مٹا دوں گی۔“
وہ چیخا، چلایا اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے حواس کو بحال کیا اور اس سب کو ایک خوف ناک خواب سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ مگر وہ اب ہر رات اس کے خواب میں آتی تھی اور اسے دھمکاتی تھی کہ اگر اس نے یہ سب نہ کیا تو اس کے خاندان کے ساتھ کیا کیا ہوسکتا ہے۔
ساتویں رات خواب میں اس نے خود کو ایک انجان کوٹھی کے ایک کمرے میں پایا ۔ اس کے ہاتھ میں تیز دھار والا خنجر تھا۔ اس رات اس نے ملک امجد کے بیٹے سعید کا قتل کر ڈالا۔ مگر حقیقتاً خواب میں اس کا خود پر کنٹرول ختم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اگلی ساتوں رات وہ پھر اسی کوٹھی کے ایک اور کمرے میں تھا جہاں اس نے ملک امجد کے دوسرے بیٹے حسن کا اسی خنجر سے قتل کیا جس وہ سعید کا کرچکا تھا۔ اس نے خواب میں فرہاد یہ بھی دھمکی دی تھی کہ اگر وہ فلیٹ چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو قدم باہر رکھتے ہی اس کے گھر والے مر جائیں گے۔ اسی طرح وہ ہر رات کا آکر اسے ڈراتی دھمکاتی رہتی تھی۔
عثمان کے قتل کے بعد اس کی ذہنی کیفیت میں بگاڑ آگیا تھا اور وہ اب آنے والے سنگین وقت کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس نے آفس جانے کے لیے گاڑی نکالی اور سیدھا ایک مذہبی پیشوا سے ملنے چلا گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں تھے۔
”میں اب اس سب سے تھک چکا ہوں۔ میں یہ مزید نہیں کرسکتا۔ میں نہیں جانتا مجھے کیا کرنا ہے لیکن اگر اس سب کو ختم کرنے کے لیے مجھے مرنا پڑا تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔“ اس نے درویش کو تمام تر حقیقت سے آگاہ کیا اور گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ دور تسبیح اور غور وفکر کرنے میں مصروف رہے اور پھر اپنی سفید داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ ”بیٹا! تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ بدروح تمھارے یہاں آنے کے متعلق نہیں جان سکتی کیونکہ وہ تم پر صرف فلیٹ کی حدود میں حاوی ہوسکتی ہے۔ اب جس رات وہ تم سے اگلا قتل کروائے گی تو اس رات تم اس خنجر سے اپنے اوپر وار کرنا۔ اور یاد رکھنا اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھنا۔ چاہے تمھیں جو مرضی دکھائی اور سنائی دے، اگر تم نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو تم زندہ نہیں بچو گے۔ اس رات فلیٹ کو اندر سے لاک مت کرنا، تمھیں صبح میں جگانے آؤں گا۔“ درویش نے شفقت سے فرہاد کی راہنمائی کی۔
دن گزرتے گئے اور ہفتے بعد وہ رات بھی آگئی۔ فرہاد کی آنکھ لگنے کی دیر تھی کہ وہ اس کوٹھی کے ایک اور کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ خون آلود خنجر اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے قدم آہستہ آہستہ پلنگ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس نے ایک دم سے اپنی آنکھیں میچ لیں اور بازؤوں کو جھٹکا دیتے ہوئے خنجر کا وار اپنے سینے میں کیا.
اسے ایسا محسوس ہوا جیسا وہ کسی اندھی کھائی میں گرپڑا ہو۔ اسے اپنے گھر والوں کی درد ناک چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ مگر اس نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔ پھر گہری خاموشی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
فرہاد کی آنکھ کھی تو درویش اس کے قریب بیٹھے کلمات پڑھ کر اس پر پھونک رہے تھے اور مسکراتے ہوئے انھیں دیکھ رہا تھا۔