ہاسٹل کی لڑکیوں کی زندگی (ازقلم: عزیزالرحمن، حیدرآباد)

عائشہ کے والد نے با دل نخواستہ اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دے دی۔

ہاسٹل کی لڑکیوں کی زندگی (ازقلم: عزیزالرحمن حیدرآباد)

عائشہ سندھ کے ایک پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوئی۔ وہ اسکول میں بڑے شوق سے پڑھتی اور اکثر اپنی کلاس میں اول آتی تھی۔ عائشہ کا خاندان خاص طور پر پردہ اور عزت کی حفاظت کے معاملے میں بہت سخت تھا۔

جلد ہی عائشہ نے میٹرک پاس کرلیا۔ پھر مزید تعلیم کے لیے والدین کو راضی کرکے ایک بڑی نامی گرامی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔۔لیکن وہ گھر سے کافی دور تھی اس لیے عائشہ نے وہیں یونیورسٹی ہی میں ہاسٹل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔اور والدین کو بتایا۔

عائشہ کبھی گھر سے دور نہیں رہی تھی۔ اب اسے پڑھائی کے لیے گھر سے دور مجبورا رہنا پڑے گا تو کیسے اپنی حفاظت کرے گی؟ اس لیے والدین نے منع کردیا۔

لیکن عائشہ کو یونیورسٹی پہنچنے اور واپس آنے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔۔۔اور کرایہ بھی بہت زیادہ لگتا اور گرمیوں کی پریشانی الگ تھی۔۔۔اس لیے عائشہ نے آخر امی کو اپنے ہاسٹل رہنے کے لیے راضی کر ہی لیا۔۔۔ اور عائشہ کے والد نے با دل نخواستہ اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دے دی۔

عائشہ کے والدین نے یونیورسٹیوں اور ہاسٹل میں رہنے والی کچھ لڑکیوں کی کہانیاں سنی ہوئی تھی۔۔۔اس لیے عائشہ کو دونوں نے سب کچھ سمجھایا۔

عائشہ کے والد عمر صاحب نے کہا۔”بیٹا! دیکھو! ہم بچیوں کی بس اسکول کی پڑھائی کرنے تک تعلیم اور پھر امور خانہ داری سکھانے کے قائل ہیں۔۔۔ ہم بیٹیوں کی بہت زیادہ تعلیم کو پسند نہیں کرتے۔۔۔ لیکن تمھاری امی نے تمھارے شوق کو دیکھ کر مجبور کیا کہ ہم تمھیں مزید تعلیم کے لیے اجازت دیں۔۔۔اب یونیورسٹی دور ہونی کی وجہ سے ہم دل پر پتھر رکھ کر خود سے دور جاکر رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔۔۔ہمیں تم ہر وقت یاد رہو گی۔۔۔اور تم بھی یاد رکھنا ہمارے دین اور خاندان میں بیٹی کی عزت کا درجہ ہر چیز سے زیادہ ہے۔۔۔ کبھی بھی بھول کر کسی بھی وجہ سے اپنی عزت اور پاکدامنی کو داغدار مت ہونے دینا۔۔۔اور اپنی عصمت کی چادر کو کبھی میلا نہ کرنا۔“

بیٹا! ہمیں تم پر پورا بھروسہ ہے پھر بھی تم یونیورسٹی میں کچھ بھی برا سمجھو ہمیں اپنا دوست سمجھ کر ہر بات بتا دینا۔اور پھر اپنا عمامہ اتار کر عائشہ کے قدموں میں رکھ دیا۔۔۔

یہ منظر دیکھ کر گھر میں سب اشک بار ہوگئے۔۔۔ عمر صاحب نے روتے ہوے کہا۔”بیٹا! اب تمھارے والد اور گھر کی عزت تمھارے قدموں میں ہے۔۔۔ عائشہ نے جلدی سے عمامہ اٹھا کر والد کو پہنایا اور گلے لگ کر رونے لگ گئی۔

عائشہ ہاسٹل میں رہنے لگی تھی۔۔۔ کچھ کچھ ہاسٹل کا ماحول عائشہ کو عجیب لگتا۔ کلاس کے بعد فارغ وقت میں کچھ لڑکیاں اور لڑکے یونیورسٹی میں پارک میں بیٹھ جاتے اور باتیں کرتے اور ہنستے اور کچھ کچھ تو ایک دوسرے کے ہاتھ ہاتھ میں دیے باتیں کرتے۔۔۔ لیکن کوئی کسی کو نہ روکتا۔۔۔گویا یہ یہاں کا عام ماحول بنا ہوا تھا۔۔۔

عائشہ فارغ وقت میں سوچتی۔”ہم سب لڑکیاں گھر والوں کو چھوڑ کر یہاں پڑھنے کے لیے آئی ہیں تو پھر یہ سب کچھ کیوں؟ اور یہاں ایسا ماحول کیوں ہے؟ کیا اس کے بغیر پڑھائی نہیں ہوسکتی؟ کیا لڑکیوں کی یونیورسٹی بالکل الگ نہیں ہوسکتیں؟ جس میں تمام استانیاں بھی عورتیں ہی ہوں۔“

لیکن معصوم تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ انگریز کا مقصد ہی اس تعلیم کے ذریعے لڑکیوں کو گھر سے نکالنا اور بے پردہ کرنا اور بے حیائی کا رستہ کھولنا تھا۔۔۔

عائشہ کے کمرے میں چار پانچ لڑکیاں رہتی تھیں۔۔۔وہ کمرے میں ہینڈ فری لگا کر گانے سنتیں۔۔۔یا کوئی بھی رومانوی ڈائجسٹ پڑھتیں کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا۔

کچھ لڑکیاں موبائل میں گندی فلمیں دیکھتیں اور ہنستیں اور عائشہ کو بھی ساتھ دیکھنے کا کہتی لیکن عائشہ کو یہ سب پسند نہیں تھا۔

عائشہ تھوڑا بہت فارغ وقت میں سوشل میڈیا پر فیس بک وغیرہ استعمال کرتی اور اس نے ہاسٹل کی لڑکیوں کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہوا تھا اس لیے وہ خود کو بچانے کی پوری کوشش کررہی تھی۔

کچھ ہی دنوں بعد ایک لڑکی سارا دن کالج اور ہاسٹل سے غائب رہی اور جب آئی تو نئے جوڑے اور نیا موبائل ساتھ تھا۔ مریم نے عائشہ کو بتایا۔”اس کی کسی بڑے آدمی سے سیٹنگ ہے۔۔۔اور پھر وہی اس کو واپس کار میں چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔اور اس کے بدلے اسے نئے جوڑے یا نیا موبائل وغیرہ مل جاتا ہے اور یہ بہت خوش ہے۔اور اس طرح کی بہت سی لڑکیاں ہیں جو اس طرح کے کاموں میں لگی ہوئیں ہیں۔ عائشہ کو ان سے نفرت ہونے لگی۔

عائشہ کے کمرے میں اقصی اور مریم اور ایک دو دوسری لڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ اقصی اور مریم کی طبیعت بھی عائشہ کی طرح تھی اس لیے یہ آپس میں گہری دوست بن گئیں اور ہر بات ایک دوسرے کو بتاتیں۔

اقصی نے عائشہ کو بڑے راز دارانہ انداز میں بتایا کہ یہاں کچھ لڑکیاں اور استانیاں بھی ایک بڑے گروہ کا حصہ ہیں وہ سبز باغ دکھا کر لڑکیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اپنی عزت کھو دیتی ہیں لیکن بدنامی کے ڈر سے خاموش رہتی ہیں۔

انہی دنوں ہاسٹل میں ایک لڑکی کی خود کشی کا واقعہ پیش آیا۔ کچھ دنوں بعد اقصی نے عائشہ کو بتایا۔ یہ میری دوست تھی۔۔۔اس نے مجھے اپنا سارا قصہ سنایا تھا۔ اسے بغیر کسی وجہ کے فیل کردیا گیا۔ اور پھر اسے پاس کرنے اور گریڈ کی لالچ میں ایک استاد نے اپنے پاس بلا کر اس نشہ دے کر اس کی عزت لوٹی۔۔۔اور ویڈیو بنالی۔۔۔ پھر استاد نے اس کی ویڈیو دکھا کر اور اسے ہر جگہ پھیلانے کی دھمکی دے کر ، بدنما کرنے سے ڈرا کر اسے ایک ایک دوست کے بسترے پر سونے پر مجبور کیا، یہ بے چاری مجبوری میں استعمال ہوتی رہی۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا تھا کسی سے مت کہنا۔ اس زندگی سے موت بہتر ہے۔۔۔کب یہ مجھے بدنام کرکے مروا دیں، آخر خود اس بات سے تنگ آکر اس نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔

لگتا ہے وہ لوگ ان لڑکیوں کی ننگی تصاویر اور ویڈیو انگریز ویب سائیٹ کو دیتے ہوں گے۔۔۔ عائشہ نے بڑی حیرانی سے سنا اور کہا تم نے یہ بات کیوں نہ اٹھائی۔اقصی نے بتایا۔ ”یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا تم سمجھ رہی ہو۔؟“

کچھ دنوں پہلے ایک لڑکی ان واقعات کو دیکھتی اور پریشان رہتی تھی۔۔۔اسے معلوم نہ تھا کہ اس کے پیچھے بہت طاقتور لوگ ہیں۔ اس نے کچھ لڑکیوں کو یہ سب کچھ کرتے ہوے دیکھا تو سمجھایا۔ لیکن وہ لڑکیاں الٹا اس کو کہنے لگیں۔”اپنے کام سے کام رکھو۔ہمارے رستے میں رکاوٹ مت بنو ورنہ بہت برا ہوگا۔“

اس نے ان کے گھر والوں کے نمبر ہاتھ کرکے انہیں سب کچھ بتا دیا۔۔۔ان لڑکیوں کو پتہ چلا تو جن کے لیے یہ لڑکیاں کام کرتی تھیں انہیں لے آئیں اور سب کے سامنے اس لڑکی کو بہت مارا اور آخر کسی طریقے سے مروادیا گیا لیکن یہ معاملہ بھی دبا دیا گیا۔

”جس ملک میں بڑے بڑے چور اور ڈاکو عدالتوں سے باعزت بری ہو جائیں اور پھر دندناتے ہوے پھریں اور علماء کرام کو دن دیہاڑے شہید کردیا جاتا ہو اور ان کے قاتلوں کو کوئی سزا نہ ہو تم اس ملک میں انصاف کی توقع رکھتی ہو۔“

عائشہ نے بڑی خاموشی سے یہ سب کچھ اپنی ڈائری میں لکھا۔۔۔واٹس ایپ گروپ بنائے۔ فیس بک گروپ بنائے۔اور یوٹیوب پر بھی ان سب لڑکیوں کے واقعات اور اس طرح کی ساری باتیں تفصیل سے لڑکیوں کو سمجھائیں اور پڑھی لکھی دیندار لڑکیوں کو تیار کیا کہ اس پر کھل لکھیں اور اپنی سادہ معصوم بہنوں کو سمجھائیں۔۔تاکہ وہ بچ جائیں۔۔۔

خود عائشہ گی ڈگری بھی دو سال تک روک دی گئی۔ عائشہ اپنے گھر سے ان کے خلاف آواز بلند کرتی رہی۔ اور بالآخر اس کا نوٹس لیا گیا۔ اور اس کے کرداروں کو سزا دی گئی۔اور عائشہ اپنے کام میں سرخرو ہوگئی۔

لیکن اب بھی بہت سی یونیورسٹیوں میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔۔۔بہت سی بچیاں بدنامی کے ڈر سے خاموش رہ جاتی ہیں۔اور بہت سی خود کشی کر لیتی ہیں کچھ کے ساتھ زوری زبردستی کرکے ویڈیو بنا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جاتا ہے۔

عائشہ نے اپنا کام پورا کردیا ہے۔ اب ہم سب لکھاری، ادیب، کالم نگار اور بڑے بڑے علماء کرام، خطیب، مقرر، محب وطن سیاستدان، معزز جج صاحبان کا کام ہے۔ جتنی بھی لڑکیاں اس طرح خود کشی کر کے مر گئیں یا انہیں قتل کردیا گیا ان سب کے خون کا ہم پر قرض ہے اور ان کی روحیں ہم سے مطالبہ کررہی ہیں۔ لاالہ کے ملک میں ہم سے انصاف کب کیا جاے گا؟؟؟

ہم نے آئیندہ کے لیے اس طرح کے واقعات کے روک تھام کے لیے کیا کیا؟؟؟اور کیا اقدامات کیے؟؟؟ اور آئندہ کے لیے اس طرح کا کوئی واقعہ سامنے آئے تو ان درندوں کے لیے سخت سے سخت سزائیں عوام کی موجودگی میں دی جائیں تاکہ عبرت ہو اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.