گنتی (افسانہ، ازقلم: شاہد فاروق، واہ کینٹ)

یہ کتے اسے خود پر بھونکتے محسوس ہو رہے تھے۔

گنتی (افسانہ، شاہد فاروق، واہ کینٹ)

"میری مَت ماری گئی اندھا ہو گیا تھا میں۔ اتنا بڑا قدم۔؟ اتنا آگے بڑھ گیا تھا میں کہ مجھے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ نہ اپنا آپ، نہ گھر بار سب ہی بھول بیٹھا میں۔ تُف ہے احمر میاں تف ہے تم پر۔”

وہ شدت سے خود کو کوسنے دے رہا تھا اس کا پورا وجود کانٹوں پر تھا۔ پچھتاوے تھے کہ پلٹ پلٹ کر آتے تھے۔

"اب پل پل جلو خود اپنی ہی لگائی آگ میں، بھگتو عذاب کے کاری لمحات۔ تم نے سوچا ہی نہیں احمر گھر والوں پر کیا بیتے گی۔؟ وہ تو جیتے جی ہی۔۔۔۔”

اس کے سامنے ماما بابا کے چہرے گھوم گئے یک لخت ہاتھ سینے پر آیا اور پانی کے کئی نمکین قطرے پلکوں سے گرتے اس کی گالوں کو بھگونے لگے۔

اس نے بڑی مہارت سے خیر دین ٹال والے کے گھر کی عقبی دیوار پھلانگی۔ صحن میں پہنچ کر تھوڑا توقف کیا کہ کسی نے آواز نہ سن لی ہو جب تسلی ہو گئی تو دبے پاؤں دہنی اوڑ واقع اکلوتے کمرے کی طرف بڑھا۔ باقی دو کمرے بائیں طرف تھے۔ جیسے ہی اس نے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا پیچھے سے کسی بھاری بھرکم جُسہ نے اسے دبوچ لیا۔ اس نے مزاحمت کی، خود کو چھڑانے کے لئے بھرپور زور لگایا لیکن پیچھے سے اچانک سر پر کسی نے آہنی وار کیا۔ وہ گرنے لگا اسے اپنی پشت پر ایک نسائی ہیولا نظر آیا اس کے بعد وہ ہوش میں نہیں رہا۔ جب ہوش آیا تو وہ سلاخوں کے پیچھے تھا پابندِ سلاسل۔

"چچا جان آپ۔؟ آپ آئے ہیں بابا جان کیوں نہیں آئے”۔؟

اسی شام راہداری میں چچا پر نظر پڑی تو وہ بے اختیار ہو گیا تھا۔” بھائی جی کیسے آتے۔؟ تم ناہنجار نے انہیں لوگوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل چھوڑا ہو تو۔؟

چچا اس کی طرف بڑھے تھے۔ وہ ان سے لپٹ جانا چاہتا تھا لیکن دونوں بیچ آہنی سلاخیں تھیں، بے بسی تھی۔ بھائی نے تمہاری پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بڑی تکلیف میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے جائے بھاڑ میں، میرا اب اس سے لینا دینا نہیں۔ اسی لیے تو میں آیا ہوں۔ کرتا ہوں کچھ۔

"واقعی میں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ برسوں میں تعمیر ہوئی عزت و ناموس کی عمارت پل میں مسمار کر دی۔” وہ ہر پہلو پر سوچتا تھا ہلکان ہوتا تھا۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور رات کی سیاہی کے ساتھ اسے اپنا مقدر بھی سیاہ ہوتا محسوس ہونے لگا تھا۔ سنتری کے لاٹھے کی آواز کے ساتھ ساتھ دور کہیں سنّاٹوں کی لہروں پر سفر کرتی کتوں کی آوازیں بھی تھیں۔ یہ کتے اسے خود پر بھونکتے محسوس ہو رہے تھے۔

"بڑے بدبخت انسان ہو تمہیں شرم نہیں آئی ڈوب نہیں مرے اتنا بڑا قدم اٹھاتے۔؟ تمہارے والد محترم اس خطے کے نامی گرامی پروفیسر ہیں ان کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔ ڈبو دیا ان کا بیڑہ۔”

انسپکٹر، احمر پر برسا تھا۔ وہ جواباً کیا کہتا۔؟ وہ تو کسی سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہا تھا۔ ایک بُو تھی نری سڑاند۔۔! جو اس کے وجود سے اٹھتی تھی اور وہ شرمنگی سے زمین میں گڑھا جاتا تھا۔

"تم نے واردات کرنے، نقب لگانے کی کوشش کی ہے۔ تمہیں پتہ ہے گذشتہ دنوں جو قرب و جوار میں ڈکیتیاں ہوئی ہیں ان کی کڑیاں بھی اس واقعے سے مل رہی ہیں۔ کتنے لوگ مزید ہیں تمہارے ساتھ”۔؟

انسپکٹر کے اس کرخت رویہ پر احمر کو گہرا دھچکا لگا وہ جھنجھلا اٹھا۔ "نہیں نہیں انسپکٹر صاحب۔! میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں یقین کریں میں نے کوئی ڈکیتی شکیتی نہیں کی۔”

"بکواس کرتا ہے۔؟ جب تیری ہڈیاں ٹوٹیں گی ناں تو تُو خود ہی بتائے گا۔ بچو ایک بات یاد رکھنا اب تمہارا بچنا ناممکنات میں سے ہے۔”

بڑا کڑا امتحان تھا۔۔۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔ احمر نے لاکھ منتیں کیں، صفائیاں دیں معافیاں مانگی لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ اندھیری رات مزید گہری ہوتی گئی۔

دن میں دو تین بار اسے تفتیش کے لیے بلایا جاتا نت نئی باتیں سننے کو ملتیں۔۔۔ ناکردہ گناہ بھی اس کے سر تھوپے جا رہے تھے کچھ ایسی باتیں بھی منوانے کی کوشش ہو رہی تھی جن کا سرے سے اسے معلوم ہی نہیں تھا۔ دو تین بار گھونسوں مُکوں سے سواگت بھی ہوا۔ اسے اب پتہ چلا تھا ماں باپ کے ہاتھ پشت پر نہ ہوں تو سہارے نہیں رہتے، زندگی کی راہیں بڑی کٹھن ہو جاتی ہیں۔ وہ کئی راتوں سے سو نہیں سکا تھا۔ پچھتاؤں کا آسیب تھا جو جان لینے پر تُلا تھا۔ خلش کی تلوار چلتی تھی اور اس کا اندر کاٹتی تھی۔ وہ گھنٹوں روتا رہتا اللّٰہ سے معافی اور توبہ کا طلب گار رہتا۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا گر دوبارہ مہلت ملی تو پھر سے زندگی کا آغاز کرے گا۔ اس کٹھالی سے باہر نہیں نکلے گا جس میں اس کے ماما بابا نے اس کی مٹی کے خمیر کو گوندھا تھا پکایا تھا۔

تھانہ میں سلاخوں کے پیچھے آج اسے گیارہ دن ہو گئے تھے۔ یہ گیارہ دن اس کی ساری زندگی پر بھاری تھے۔ ایک گہرا دھبہ تھا جو مٹتا نہیں تھا جو اس کی ساری زندگی داغ دار کر گیا تھا۔ اسی شام مغرب کی اذان سے پہلے اسے اپنے بابا جانی چچا کے ساتھ دکھائی دئیے۔ بابا ان چند دنوں میں کتنے بدل گئے تھے بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے قدموں میں لرزش تھی جیسے کسی بڑی بیماری کے بعد انسان سینت سانت کر قدم اٹھاتا ہے۔ وہ رہ نہ سکا بے اختیار پکار اٹھا۔

"بابا۔!! بابا جانی۔۔!!”

بابا نے اس کی بات ان سنی کر دی ایک پل کے لئے دیکھا بھی ناں اور آگے بڑھ گئے۔ وہ کٹ کر رہ گیا اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس پلِ صراط سے گزرے گا۔ وہ خود کو کھلے آسمان تلے محسوس کر رہا تھا جیسے چھت نہ رہی ہو۔ چچا تھوڑی دیر بعد اس سے ملنے آئے کہنے لگے۔

"احمر۔! بھائی جان کئی روز سے سو نہیں پائے۔ ان کا کہنا تھا یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہیں گیا۔؟ سخت ناراض ہیں، سامنا نہیں کرنا چاہتے تمہارا۔”

احمر کی ہچکی بندھ گئی کچھ بول نہیں پایا۔ چچا نے اس کی یہ حالت دیکھی تو دلاسہ دیتے بولے۔

"بھائی معاملات طے کرنے آئے ہیں میں نے بہت کوشش کی لیکن ان کے بغیر حتمی طور یہ ممکن نہیں تھا۔ تمہارے لئے خوش خبری ہے شاید تصفیہ ہو جائے چھ لاکھ مانگ رہے ہیں۔ حوصلہ رکھو ان شاءاللّٰہ ایک دو روز میں تم آزاد ہو گے۔”

یہ خوشی کی خبر تھی لیکن احمر کو کوئی خوشی نہ ہوئی بابا کی بے رخی، بے خبری اسے کھائے جا رہی تھی وہ خوش کیسے ہوتا۔؟

اگلے روز شام کے بعد ضروری کاروائی کے بعد رہائی عمل میں آ گئی۔ سارے موجود تھے، کچھ لوگ خیر دین کی طرف سے تھے. کچھ احمر کے گھر والوں کی طرف سے۔ پروفیسر صاحب نہیں آئے تھے، گھر سے صرف چچا تھے۔ احمر کو ذرا خوشی نہیں ہوئی. اسے غصہ آ رہا تھا وہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بُرا وہی کیوں۔؟ واقعہ کی اصل حقیقت خیر دین پر آشکار ہونی چاہیے۔ وہ خیر دین کو دُور لے گیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔

"چچا خیر دین غور سے سننا میری بات میں اس دن پانچویں بار آپ کے گھر کُودا۔ چار بار مکمل کامیاب رہا لیکن اب کی دفعہ پکڑا گیا۔ ہاں میں نے آپ کے گھر میں نقب ضرور لگائی ہے لیکن وہ والی نقب نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میں آپ کی بیٹی کے بلانے پر آپ کے گھر آتا جاتا رہا، معاملہ دو طرفہ ہے یک طرفہ نہیں۔ گھر جا کر سارہ خیر دین سے پوچھ لینا حقیقت یہی ہے۔”

خیر دین کچھ دیر اسے غور سے دیکھتا رہا مسکراتا رہا پھر زور کا قہقہہ لگایا اور بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتے آگے کو بڑھ گیا۔ "بیٹا گنتی تو ٹھیک کر لو پانچویں نہیں ساتویں بار”۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.