ادراک (ازقلم: ثمرین مسکین، اٹک)
عورتوں کے سروں پر ٹھہرے دوپٹے پھڑپھڑانے لگے

ادراک (ازقلم: ثمرین مسکین، اٹک)
موسم نے ایک دم سے اپنے تیور بدلےتھے۔ کچھ دیر پہلے تک تو آسمان کارنگ ہلکانیلاتھا۔ نرم نرم روئی جیسےبادلوں سے آسمان کی گود بھری ہوئی تھی۔ اچانک ہی بادلوں نےاپنارنگ بدلااور سفیدی کی جگہ سیاہی نےلےلی۔
بےفکری سے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ آسمان نے روئی کے گالوں کو گود سے اتار کر سیاہی کی چادر اوڑھی. پیڑوں نے پورا زور لگایا. گویازمین سے اکھڑنے کو بےتاب ہوں، اتنی زور سے آندھی چلی کہ بادلوں کی سیاہی نے بھی ادھر ادھر دوڑنا شروع کردیا۔ اندھادھند آندھی نے کسی کو سنبھلنے کاموقع بھی نہ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز کو تہس نہس کردیا۔
ہر بندے نے اپنے کاموں کو چھوڑ کر اڑتی پڑتی گرد کوبرابھلاکہناشروع کردیا۔ عورتوں کے سروں پر ٹھہرے دوپٹے پھڑپھڑانے لگے، بچےادھر ادھر تیز ہواکےسنگ اٹھکیلیاں کرنےلگے۔
اتنے میں مائی زرینہ جو دن بھر کپڑے دھو دھو کر ہلکان ہوئی پڑی تھی۔ اب گائےکےتھنوں سے دودھ نکال رہی تھی، تو اپنی بیٹی شبو کو آواز لگائی ارے او شبو!”ارے کم بخت جاکر چھت سے کپڑے تو اتار لاؤ۔”
اب تو گرد سے اٹ چکے ہوں گے ۔ شبو نے ایک کان سےسنادوسرے سے نکال دیا۔ مائی زرینہ گائے کا دودھ نکال کر لوگوں کو دینےکےلیے مختلف برتنوں میں بڑی احتیاط سے ڈالتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔
کام سے فارغ ہوکر چھت پر کپڑے اتارنے گئی، تو ساتھ والے گھر سے اکبر کی دکان کےجلنے کی خبر سنی،جلدی جلدی کپڑے اتارے نیچے آئی،اور بھاگی بھاگی اکبرکےگھر گئی۔
ہانپتےکانپتے ان کے گھر پہنچ کر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ کلثوم کو بھی جیسے مائی زرینہ کا ہی انتظار تھا۔ روتےکرلاتے کہنے لگی،
"بہت نقصان ہوگیا زرینہ بہن، بہت نقصان ہوگیا”۔
کلثوم نے مائی زرینہ کو دیکھتے ہی روناپیٹناشروع کردیااور کہنےلگی: اللہ! جانے کس کی نظر لگ گئی؟ مائی زرینہ نے بھرائی آواز سے اکبر کی بیوی کلثوم کو تسلی دینے کو گلےلگایا.
ارے بہن! "یہ سب ہواکیسے”؟ کیا!اکبر بھائی دکان پر نہیں تھے؟ انہیں اس حادثے کی خبر نہیں تھی کہ بروقت آگ بجھاسکتے، کسی کو مددکےلیے بلالیتے وہ کیاکہتے ہیں انہوں سر پر ہاتھ مار کر یاد کرنے کی کوشش کی، اس آگ بجھانے والی ٹیم کو بلالیتے، مائی زرینہ نے روتی بلکتی اکبر کی بیوی سے ایک ساتھ کئی سوال کرڈالے،ساتھ ہی کئی تسلیاں دلاسےدےڈالے۔
اکبر کی بیوی روتے روتے سارا قصہ سنانے لگی۔ ہائے!بہن کیا بتاؤں؟ عامر کےابادکان پر ہی تھے کہہ رہے تھے۔ گاہک کو چینی تول کر دے رہا تھاکہ ہواکےسنگ ایک چنگاری نہ جانے کہاں سے اڑتی ہوئی آئی اور پوری دکان کو اپنی لپیٹ میں لےلیا، کہنےلگے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آخر ہواکیاتھا؟
کلثوم اپنےہوئے نقصان پر روتی بلکتی رہی،لیکن ہونی کو کون ٹال سکتاہے؟ چچ چچ۔۔۔ کی آوازیں ایک ساتھ برآمد ہوئیں. دیکھتے ہی دیکھتے پورے محلےکی عورتیں اکبر کے ہونے والے نقصان پر افسوس کرنےجمع ہوگئیں تھیں۔
چند خواتین اکبر کی دکان کےہونےوالےنقصان کو بھول کر ایک دم سے آنے والے طوفان پر بات کرنےلگیں۔ ایک نےکہا: کلثوم بہن! بڑادکھ ہوا تمہارے نقصان کاسن کر بس رہا نہیں گیا تو دوڑی چلی آئی ہوں۔ دوسری عورت نے کہا:ہاں نا بہن!” دیکھو طوفان بھی تو اچانک سے اٹھا، مشرق کی طرف سے بادلوں نے بھی کالی سیاہ چادر اوڑھ لی تھی۔
گویا کسی کو سالم نگل لےگا۔نہ جانے اتنی غصیلی آ ندھی کیوں چلی؟سناہے فصلوں کابھی بڑا نقصان ہواہے۔ دوسری عورت نےکہا:ہاں بہن!” ایسی غصیلی آندھیاں اور طوفان تب آتے ہیں جب کوئی بہت بڑا گناہ کسی سے سرزد ہوجائے”۔
کسی کا قتل ہوجائے یا کوئی بہت بڑا گناہ ہوجائے تو ایسے ہی غصیلے طوفان آکر ساری چیزوں کو اکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں اور تیز آندھی کےساتھ اڑتی چنگاریاں اسی طرح کچھ نہ کچھ جلاکر بھسم کردیتی ہیں،جیسے اکبر بھائی اور کلثوم بہن کا نقصان کردیا۔
ہم نےتو اپنے بڑوں سے یہی سناہے۔دوسری عورت نے کہا:سناتو ہم نے بھی یہی ہے توبہ توبہ،اللہ کی پناہ! ایک اور عورت کہنےلگی،نہ بہن ایسا کب ہوتاہے؟یہ تو ہماری من گھڑت باتیں ہیں۔
ایک دوسری عورت نے کہا: یہ تو اللّہ کےکام ہیں۔ یہ سنی سنائی باتیں ہیں جن کو ہم سب نے آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا، عقیدہ بنالیا۔
اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہنےلگی ،”یہ تو اس سوہنے رب کےکام ہیں جیسے چاہے کرے”۔
اکبر کی بیوی نے روتے کرلاتے ہوئے کہا:” تو اس میں ہمارا کیا قصور تھا”؟ ہمارا سب کچھ جلاکر خاکستر کیوں کردیا اس طوفان نے؟ ہم نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔
ہائے!ہم لٹ گئے کسی کے کیے کی سزا ہمیں بگھتناپڑی۔ سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ ہماری روزی روٹی کا واحد ذریعہ عامر کے ابا کی دکان تھی۔اب کیسے سب ہوگا؟اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟پہلے ہی کئی کئی دن پیٹ کاٹ کر اس دکان کا خرچ ڈلوایا تھا۔اتنی مشکلوں سے آمدن شروع ہوئی تھی۔
ہائے!کیسی آفت ٹوٹ پڑی؟ کس کی نظر لگ گئی؟کس کی نظر لگ گئی؟ کلثوم کی زبان سے بار بار یہی جملے نکل رہے تھے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسی آزمائش ہے۔
کئی عورتوں نے اسے صبر کرنے کی تلقین کی،اور کہا کہ:”اللّہ بہترین نعم البدل سے نوازے گا”۔ حوصلہ رکھو۔ کچھ دیر کےلیے وہ چپ کی بکل مارتی تو پھر سوچوں کی یلغار اس کو واویلا کرنے پر مجبور کردیتی۔
اکبر دور بیٹھا تھا وہ اپنے نقصان کی بابت پریشان تھا . کھلے صحن میں بیٹھی عورتوں کی آوازیں جو کے دلاسے کی صورت تھیں اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔اکبران سب عورتوں کی باتیں سن رہاتھاوہ چونکاتو تب جب ایک عورت کی آواز اس کے کانوں میں پڑی طوفان تب آتے ہیں” جب کوئی بہت بڑا گناہ کرے”،یہ بات اس کے کانوں پر ہتھوڑا بن کرلگی تھی اسے ایسالگا کسی نے آئینہ اٹھاکر اسےدکھادیاہو، اس کےکان سائیں سائیں کرنےلگ گئےتھے۔
اس نے تھر تھر کانپناشروع کردیا اسےایک ہی بازگشت سنائی دےرہی تھی۔ "ایسے غصیلےطوفان تب آتے ہیں جب کوئی بہت بڑا گناہ کرے”
"کوئی کسی کا قتل کرے”
اکبر نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا:کوئی کسی کا قتل کرے۔ "ہاں میں نے گناہ کیاہے”۔ "میں نے قتل کیاہے”۔ انسانیت کا قتل، ایک کے بعد ایک گاہک کا چہرہ اس کی آنکھوں کےسامنے گھومتا چلاگیا، کبھی چینی خریدتا شیدا کمہار، کبھی نمک خریدتا دینو کا منجھلا بیٹا، کبھی آٹا خریدتاجیدا سب کے چہرے اس کو ازبر تھے۔
وہ مضحکہ خیز ہنسی جو وہ ان گاہکوں کےجانے کے بعد ہنساکرتاتھا۔ سب کچھ ایک کے بعد ایک اس کو کچوکے لگارہے تھے۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ رب کی طرف سے رسی کھینچنا اسے ہی کہتے ہیں۔ آج آس کے کرتوتوں کی رسی کھینچ لی گئی تھی۔ آج اسے سمجھ آگئی تھی کہ چڑیا کھیت کیسے چگ لیتی ہے۔ آج اس کا پورا کھیت چڑیا کی بجائے آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لےلیاتھا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کےبالوں کو نوچ لیا،وہ خاموش آنسو بہاتارہا۔ اسے ادراک ہوگیاتھاکہ ناپ تول میں کمی کرنےسے بڑا بھی کوئی گناہ ہوگا؟
اس سے بڑا بھی کوئی قتل ہوگا کیا؟ اسے احساس ہوگیاتھا لیکن سب کچھ کھو کر۔۔ ایک ہی بازگشت نے اس کو پچھتاوے کے گہرے سمندر میں غوطہ زن کردیاتھا "ایسے غصیلے طوفان تب آتے ہیں جب کوئی بہت بڑا گناہ کرے”اس کو یہ آواز اب ضمیر سے آتی سنائی دے رہی تھی۔
ادھر مائی زرینہ کو دودھ میں ملاوٹ کرنے کا خیال دماغ میں لپکاکہ کیاملاوٹ سے بڑا بھی کوئی گناہ ہوگا؟ وہ بھی نظریں چرانے لگی تھیں۔
اب طوفان تھم چکاتھا، ہر چیز اپنی جگہ واپس آگئی تھی مائی زرینہ بھی اور اکبر بھی۔