آدھا (افسانہ، از قلم: انیلہ افضال ایڈووکیٹ)

محسن کی آنکھوں میں ممنونیت کے ساتھ ساتھ پچھتاوا بھی صاف دکھائی دے رہا تھا

رومال سے محسن کا منہ صاف کرتی رافیعہ نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ برتن سائیڈ ٹیبل پر ٹکائے اور بڑی احتیاط سے محسن کو بستر پر لٹا دیا۔

محسن کی آنکھوں میں ممنونیت کے ساتھ ساتھ پچھتاوا بھی صاف دکھائی دے رہا تھا اور اس پچھتاوے میں شرمندگی اور احساس جرم بھی نظر آ رہا تھا۔ محسن کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ عموماً لوگوں کی آنکھیں کالی، بھوری، نیلی، یا سبز ہوتی ہیں۔ اور بھی رنگ ہوتے ہوں گے، لیکن محسن کی آنکھوں میں کافی سارے رنگ تھے۔ بھوری، سبز، کالی اور تھوڑی سی میرون! اس کی آنکھیں عام آنکھوں سے کافی مختلف تھیں۔ ایک ہی آنکھ میں چار رنگ اور چار رنگوں کے جذبات سے بھر پور آنکھیں۔

رافیعہ اکثر اس کی آنکھوں کو دیکھ کر مہبوت ہو جاتی۔ صرف آنکھیں ہی کیوں، محسن کی مکمل شخصیت پر شکوہ تھی۔ نکلتا ہوا قد، صاف اور نکھرا ہوا رنگ، گھنے اور قدرے خمدار بال، چوڑے شانے، مضبوط ڈیل ڈول، کسی بھی عورت کو مائل کرنے کے لیے کافی تھا۔

محسن کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ لڑکیاں اس سے مرعوب ہو جاتی ہیں، لیکن وہ خود اپنے دل میں ابھی تک کسی لڑکی کے لیے خاص جذبات محسوس نہیں کر سکا تھا۔ اس لیے جب گھر میں اس کی شادی کی بات چلی تو اس نے امی کو لڑکی چننے کا پورا اختیار دے دیا۔ یوں رافعیہ امی کی پسند سے اس کی زندگی میں داخل ہو گئی۔

وہ رافعیہ کے ساتھ خوش تھا، زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ حوریہ اور احسن کے آجانے سے زندگی جیسے مکمل سی ہو گئی تھی۔ ابھی احسن تین سال کا ہی تھا کہ امی جنت سدھار گئیں۔ ابو کا انتقال تو اس کی شادی سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ دونوں بہنیں اپنے اپنے گھر میں خوش تھیں۔ غرض راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

کچھ دن سے رافعیہ محسن کو پریشان اور بے چین محسوس کر رہی تھی۔ ایک دو بار پوچھا بھی مگر محسن ٹال گیا۔ بچوں کے سکول میں سردی کی چھٹیاں تھیں تو رافعیہ محسن سے اجازت لے کر ہفتے بھر کے لیے میکے چلی آئی، مگر یہاں بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ عجیب سے بی چینی اور بے کلی تھی جو اسے کسی پل سکون نہ لینے دے رہی تھی۔

رافعیہ کے لیے یہ صورتحال عجیب تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اس کا دل نوچ رہا ہے۔ رات تو اسے نیند بھی نہیں آئی تھی۔ وہ ناشتے کے دوران ہی گھر لوٹ جانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ امی نے کہا بھی کہ تم تو ہفتے بھر کے لیے آئی تھیں، اب تیسرے ہی دن گھر کی یاد ستانے لگی۔ محسن کیا سوچے گا کہ اس کی ماں نے اسے سات دن بھی نہیں رکھا اور واپس بھیج دیا ہے۔

وہ ایسا کچھ نہیں سوچیں گے امی! بس میرا دل نہیں لگ رہا، جی چاہتا ہے کہ اڑ کر گھر پہنچ جاؤں ۔ اچھا بھئی! جیسے تمہاری مرضی! امی نے کہا۔

خیر سے اپنے گھر جاؤ ، بیٹیاں اپنے گھروں میں اچھی لگتی ہیں، اور اپنے گھر سے محبت ہونا تو بہت اچھی بات ہے۔ ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے دعا دی۔

بھائی رکشہ لے آیا اور وہ بچوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ تمام راستے وہ یہی سوچتی رہی کہ محسن آفس جا چکے ہوں گے۔ اور ہمیشہ کی طرح پورا گھر بکھرا پڑا ہو گا۔ اب جا کر پہلے سب سمیٹوں گی پھر کھانا بنا لوں گی۔ محسن کے لیے یہ سب ایک سرپرائز ہی ہو گا، وہ خود ہی مسکرا دی۔

گھر پہنچ کر اس نے پرس میں سے گھر کی چابی نکالی۔ بچوں کو لاونج میں بٹھا کر ہیٹر ان کر دیا اور خود اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے کمرے کی طرف چل دی۔ پہلے کپڑے بدل لوں پھر کمرہ صاف کرتی ہوں۔ مگر کمرہ تو بالکل درست حالت میں تھا، کچھ بھی بکھرا ہوا نہیں تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ بجائے خوش ہونے کے اسے عجیب سی ٹینشن ہونے لگی تھی۔ وہ کچن کی طرف چلی آئی کہ دو دن کے برتن دھونے کے لیے رکھے ہوں گے، مگر یہاں بھی سب کچھ مینجڈ تھا۔

وہ اپنی حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی۔ شام کو چائے پر خاص اہتمام کے ساتھ وہ محسن کے لوٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ٹھیک ساڑھے پانچ بجے محسن کی گاڑی کی آواز سنائی دی۔ وہ مسکرا دی۔ چابی سے دروازہ کھلنے کی آواز اور ایک نقرئی ہنسی، ایک ساتھ اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اگلے ہی لمحے چابی محسن کے ہاتھ سے گر گئی۔ وہ تینوں منہ کھولے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ رافعیہ ، محسن اور وہ نقرئی ہنسی والی۔

و و و وہ وہ! یہ صاحبہ ہے۔ محسن نے گویا تعارف کروانا چاہا
کون صاحبہ؟ رافعیہ نے پوچھا
یہ یہ وہ وہ میری کولیگ ہیں۔ وہ ہکلایا
تو یہاں کیا کر رہی ہیں؟ جبکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی بیوی گھر پر نہیں ہے تو یہ یہاں کیوں ہیں؟ رافعیہ نے قدرے تیکھے انداز میں ہوچھا۔
وہ وہ ، یہ یہ!!!!!
کیا وہ وہ ، یہ یہ، آپ بتا کیوں نہیں دیتے کہ آپ مجھ سے نکاح کر چکے ہیں۔ صاحبہ نے سکون سے کہا۔
کیا!!!!! نکاح!!!!!!! محسن!!!!!!!
میں تمہیں سب کچھ سمجھاتا ہوں۔

وہ کچھ سنے بنا ہی کمرے میں چلی آئی۔ ساری رات وہ بند کمرے میں روتی رہی اور محسن انگاروں پر لوٹتا رہا، جبکہ صاحبہ پیر جلی بلی کی طرح لاونج میں چکر کاٹتی رہی۔ بچے ٹی وی دیکھتے دیکھتے وہیں صوفوں پر ہی سو چکے تھے۔ صبح کمرے سے نکلتے ہوئے وہ ایک فیصلہ کر چکی تھی۔ اس نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھولا۔ محسن جھٹ سے اس کے قدموں میں آ بیٹھا۔

نہیں محسن، آپ میرے سرتاج ہیں، اگر آپ کی خوشی صاحبہ کے ساتھ میں ہے تو میں آپ کی خوشی میں خوش ہوں۔ مگر اس صورتحال کو قبول کرنے میں ابھی مجھے چند دن لگیں گے۔ آپ دونوں کو آفس جانا ہو گا، میں آپ کے لیے ناشتہ بناتی ہوں۔

محسن اور صاحبہ دونوں ہی غیر یقینی کیفیت میں تھے۔ ویک اینڈ تک رافعیہ کافی سنبھل چکی تھی۔ اس نے اپنا تمام زیور نکالا اور اس میں سے آدھا صاحبہ کو دے دیا۔ صاحبہ کی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔ اب اس گھر میں جو کچھ بھی ہے ہم دونوں کا ہے آدھا آدھا۔ چاہو تو دونوں بچوں میں سے بھی ایک تمہارا ہوا۔ جب ان کا باپ تمہارے ساتھ بانٹ لیا تو بچے کیوں نہیں۔

محسن اور صاحبہ کے لیے یہ سب کافی حیران کن تھا لیکن محسن اس سب سے کافی مطمئن بھی لگ رہا تھا۔ سب کچھ نارمل تھا۔ صرف جس دن محسن صاحبہ کے کمرے میں سوتا اگلی صبح رافعیہ کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوتیں۔ رافعیہ اسے یہ کہہ کر مطمئن کر دیتی کہ اسے کچھ وقت لگے گا۔ سب کچھ تو بانٹ لیا شوہر کو بانٹنے میں وقت لگے گا۔ رافعیہ اپنی تمام تر ذمہ داریاں پہلے کی طرح ہی انجام دے رہی تھی۔

محسن کے لباس، کھانے اور دوائیوں کا خیال پہلے ہی کی طرح رکھ رہی تھی۔ محسن کچھ دنوں سے اپنی طبیعت میں بے چینی محسوس کر رہاتھا۔ شاید یہ اس کی اندر کا احساس جرم تھا۔ جو اسے بے چین کئے ہوئے تھا۔ رافعیہ نے بھی تو کتنی آسانی سے اسے معاف کر دیا تھا۔ شاید یہ اسی بات کا گلٹ تھا۔ اس کی شوگر پھر سے آؤٹ آف کنٹرول ہو رہی تھی۔ حالانکہ رافعیہ اس کی صحت کے معاملے میں بہت محتاط تھی۔ ڈاکٹر نے دو بار دوا بھی تبدیل کی تھی مگر شوگر تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔

اس دن آفس میں محسن کی طبیعت بگڑ گئی۔ اسے فوراً اسپتال منتقل کیا گیا۔ شوگر کا لیول خطرناک حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے اسے فالج کا اٹیک آیا تھا۔ جان تو بچ گئی مگر محسن نہ صرف قوت گویائی سے محروم ہو گیا بلکہ وہ بنا سہارے کے چلنے سے بھی معذور ہو گیا، حتی کہ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا تک نہیں کھا سکتا تھا۔ ایسے میں رافعیہ نے ہمت سے کام لیا۔ اس نے محسن اور صاحبہ دونوں کو سہارا دیا۔

چند دن تو صاحبہ بھی محسن کی خدمت میں لگی رہی، مگر کب تک گھر کا خرچ بھی تو چلانا تھا اور محسن کی دوائیاں بھی لانی تھیں۔ صاحبہ نے آفس جانا شروع کر دیا، یوں محسن مستقل طور پر رافعیہ کے کمرے میں منتقل ہو گیا۔ رافعیہ جی جان سے محسن کی خدمت کر رہی تھی۔ اسے کھانا کھلانا، واش روم لے جانا، نہلانا، دوا دینا سب رافعیہ کے ذمے تھا، جبکہ صاحبہ گھر کی کفیل بن گئی تھی۔

صاحبہ اور محسن دونوں ہی رافعیہ کے ممنون تھے۔ رافعیہ بہت خوش اور مطمئن تھی۔ کسی کو پتا ہی نہیں چلا تھا کہ کیسے اور کب اس نے محسن کی شوگر کی دوائیوں کی تبدیلی کی آڑ میں اسے گلوکوز کی گولیاں کھلانا شروع کر دی تھیں۔ اس نے صاحبہ کے ساتھ سب کچھ آدھا آدھا بانٹ لیا تھا مگر شوہر اسے پورا چاہیئے تھا۔ پھر چاہے اس کے لیے اسے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.