بارود (از ارسلان اللہ خان، کراچی)

وہ خود اپنے لوگوں کو مار کر بارود پر الزام لگانے کی ترکیب بنارہے ہوں گے

بارود (از ارسلان اللہ خان، کراچی)

"یار کریم ! آتنک واد کاالزام ،پھر سرچ آپریشن کا بہانا،پھر وہی مار پیٹ،وہی ظلم و ستم ۔۔۔”

"یاور !کشمیر میں تو یہ روز ہی ہوتا رہتا ہے ۔ہم سب دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں ہیں،لیکن

تمہیں کیا ضرورت تھی بارود کو پناہ دینے کی ۔”

” ان بالی وُڈ والوں نے فلم کشمیر فائلز میں جو کچھ دکھایا ہے اُس کے بعد بارود کا ساتھ نہیں دیتا تو اور کیا کرتا ۔؟”

” کہتے تو تُم ٹھیک ہی ہو یار لیکن اب پھر وہی ہوگا ، پہلے کوئی واقعہ ہوتا ہے پھر بھارتی فوج آکر آپریشن کے بہانے گھر گھر مار پیٹ کرتی ہے ۔ابھی آتی ہوگی آرمی کی جیپ ۔۔۔”

” نہیں آج مُشکل ہے ، آج اُن کے پنڈتوں کی یاتراہے اور اُن کو اسی بات کا خوف ہے کہ کہیں بارود اُن پر حملہ نہ کردے ،حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی مسلمان مُجاہد کبھی کسی معصوم ہندو پر حملہ نہیں کرتا ۔”

” ارے بھائی ! وہ خود اپنے لوگوں کو مار کر بارود پر الزام لگانے کی ترکیب بنارہے ہوں گے ۔”

اور تھوڑی ہی دیر میں خبر آگئی کہ ہندو یاتریوں پر حملہ ہوگیا ہے جس میں ایک سو بیس یاتری مارے گئے ہیں اور اس کا الزام "بارود” کے سر ہے ۔

” اللہ بارود کی حفاظت کرے ،یار کریم تُم نے تو بالکل ٹھیک کہاتھا ۔”

"بھارتی فوج یہاں کتنی بار آئی ہے لیکن کبھی بارود کو پکڑ نہیں سکی ۔ ”

"بالکل !

حیرت ہے یاراتنے سے علاقے میں لاکھوں کی بھارتی فوج ایک مجاہد "بارود” کو نہیں پکڑ سکی ۔”

"اُس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد ہے ”

"اور ہماری دُعائیں بھی”۔

یاور کی قسمت اچھی تھی کہ سرچ آپریشن کے دوران تیز بارش شروع ہوگئی جس کی وجہ سے بھارتی فوج کچھ خاص کام نہیں کرسکی اور ایک دو لڑکوں کو ویسے ہی پکڑ کر لے گئی تاکہ اپنی شرمندگی مٹاسکے۔

” یاور ! تُم بال بال بچ گئے ۔ بھائی میری مانو! اب ایسا نہیں کرنا، ویسے ایک بات تو بتائو بارود دیکھنے میں ہے کیسا؟”

"اُس کی آنکھوں میں ایک آگ ہے ، میں اُس سے آنکھیں تک نہیں ملاپارہا تھا ۔”

” انجلی تو نے آنے میں اتنی دیر کیوں کردی ۔؟”

” وہ میں نماز پڑھ رہی تھی نا ۔”

” ارے تو کب سے نماز پڑھنے لگی ۔”

” دیکھنا ایک دن میں تیرے ساتھ نکاح کروں گی ۔ تو مُیرا نام کیا رکھے گا ؟”۔

"فاطمہ ! میں تُجھے فاطمہ بلاؤں گا ۔”

"واہ کتنا سُندر نام ہے ۔بالکل دھنش کے رنگوں جیساسُشیل۔آتما کو جیسے شانتی مل رہی ہو ۔”

” تو آگ سے کھیل رہی ہے انجلی ! ”

” ہم بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ پلے بڑھے ،ایک ساتھ کھیلے کودے ،یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔جب میرے پتاجی نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ میری شادی تُجھ ہی سے کریں گے تو۔”

” چل پگلی ! تیرے پتا جی تو پنڈت ہیں ۔”

” تو کیا ہوا تُم بھی تو سید ہو ،میرے پتاجی تُمہارا بہت احترام کرتے ہیں اور میری ماں بھی کہتی ہے کہ جب بھی علی کے پاس جاؤتو اُس کے یہاں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا وہ آلِ رسول کا گھر ہے ۔ہم تو اُن کے نوکر ہیں۔”

انجلی بے تحاشا بولتی چلی جارہی تھی ، علی کو یہ سب خواب وخیال کی باتیں لگ رہی تھیں ۔انجلی کشمیری پنڈت خاندان کی اکلوتی اولاد تھی ،انجلی اور علی کےگھر برابر برابر تھے ،دونوں ساتھ ہی بڑے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ پنڈت جی کے قلب میں مُسلمانوں اور خاص کر سادات کا ادب و احترام موجزن تھا ۔ وہ ہر طریقے سے مُسلمانوں کے ساتھ تعاون کرتے۔ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے سخت خلاف تھے ۔ اُن کی اسی سوچ کی بنا پر کٹّر ہندو اُنہیں مولوی کہتے تھے ۔کئی بار اُنہیں مُسلمانوں کی پُشت پناہی پر سخت حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اُن کے پایہ ءِ استقلال میں ذرّہ بھر کمی نہ آئی ۔

وادی کے حالات خراب ہورہے تھے ۔پنڈت جی چاہتے تھے کہ اپنی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی انجلی کی شادی علی کے ساتھ جلد سے جلد کردیں ۔ علی ابھی چھوٹا سا تھا کہ اُس کے والد انتقال کرگئے تھے، پنڈت جی انہیں” شاہ صاحب ” کہہ کر بُلاتے تھے ، ۔ اُن کے بعد پنڈت جی نے علی کا ہمیشہ خیال رکھا ،وہ علی کا بہت ساتھ دیتے تھے ، اُنہوں نے علی کو اپنے سامنے جوان ہوتے دیکھا تھا ۔ اُن کے نزدیک علی ایک سُندر

اور مہان نوجوان تھا اور وہ اُنہیں بہت پسند تھا ۔ جب علی پانچ وقت نماز پڑھنے مسجدجاتا تو پنڈت جی بہت مُتاثر ہوتے ۔ اُن کی پتنی بھی علی کو اپنے داماد کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔

ایک دن اچانک ہی پنڈت جی اور اُن کی پتنی علی کے گھر آئے اور انہوں نے علی کا رشتہ مانگا :

"آپ گھبرائیں نہیں شاہ صاحب کی بیگم صاحبہ !

انجلی مُسلمان ہوچکی ہے ، مُسلمان تو ہم دونوں میاں بیوی بھی ہوچکے ہیں لیکن آپ کو پتا ہے کہ وادی کا کیا حال ہے ،ہم تو بوڑھے جیسے تیسے وقت گُزار لیں گے لیکن ہماری بیٹی آپ کے گھر کی بہو بنے گی تو ہم سمجھیں گے ہماری منوکامنا اللہ نے پوری کردی اور ہمارا اسلام قبول کرلیا۔”

"یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں پنڈت جی ! یہ تو بہت خوشی کی بات ہے لیکن جب لوگوں کو اس کا پتہ چلے گا تو کہیں ہم سب کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے ۔”

” جی شاہ بیگم ! آپ ٹھیک کہتی ہیں ، جبھی میں نے پنڈت جی سے کہا ہے کہ ان کی شادی گھر کے اندر سادگی سے کردی جائے اور پھر کچھ دنوں کے بعد ہم سب کہیں اور چلے جائیں گے تاکہ یہاں کی نرگ بھری زندگی سے جان چھوٹے۔”

” ارے علی آگیا ! آؤ علی بیٹا! ہمارے پاس بیٹھو ! ”

” پنڈت جی ! کیسے ہیں آپ ؟ ”

"بس بیٹا اب بوڑھا ہوگیا ہوں ،تُم میرا بازو بنو ،میری بیٹی فاطمہ کا ہاتھ تھام لو ۔”

” علی کے چہرے پرشرمیلے پن کے آثار نمودار ہونے لگے ۔۔۔۔۔اور وہ انجلی کی طرف چور نظروں سے دیکھ کر مُسکراتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔”

"ادھر انجلی بھی شرماکر پھولے نہیں سما رہی تھی ۔

” ارے یہ تو بالکل لڑکیوں کی طرح شرما گیا ! آج کل ایسے نوجوان کہاں ہوتے ہیں ،بھئی کمال شکشا دی ہے آپ نے علی کو ۔”

سب کچھ اچھاچل رہا تھا ۔ کچھ ہی دنوں میں علی کی انجلی سے شادی ہوگئی ۔ انجلی کا نام اب فاطمہ تھا ۔ یہ نکاح بہت چھُپ چھُپا کر ہوا ۔ اُن دنوں وادی میں بھی امن و امان کا ماحول رہا ۔

سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن بھارتی فوج نے وادی میں سخت کرفیو لگادیا ۔ اتفاق سے اُس وقت علی اور فاطمہ ایک باغ میں سیر کر رہے تھے ۔ جب گھر آنے لگے تو راستے میں بھارتی فوج نے اُن دونوں کو روک لیا۔

پوچھ تاچھ کے بہانے فوجی جب فاطمہ سے بدتمیزی کرنے لگے تو علی نے ایک فوجی کو زوردار مُکّا رسید کردیا ۔ سارے فوجی مل کر دونوں کو زدوکوب کرنے لگے اسی اثناء میں ایک فوجی افسر نے فاطمہ کا نقاب اُتارا تو وہ انگُشت بدنداں رہ گیا ۔ اُس فوجی افسر کاپنڈت جی کے یہاں آنا جانا تھا اسی لیے وہ فوراً انجلی کو پہچان گیا ۔

"غدّار لڑکی ! تو اپنا دھرم ختم کرکے اس ملیچ اور ناپاک مسلے کے پراپیگنڈے کا شکار ہوگئی ۔ ”

دوسرے فوجی نے کہا :

” ارے اس مُسلمان نے اسے اپنے جال میں پھنسایا ہوگا ،اس پر وادی میں آتنک پھیلانے کا الزام لگاکر جیل لے چلتے ہیں۔”

فاطمہ چلّائی ! "علی نے کچھ نہیں کیا سر ! میں نے پنڈت جی کے کہنے پر ہی اس سے شادی کی ہے ۔”

” ارے چل تُجھے بھی جیل کا مزہ چکھاتے ہیں۔”

” تُم لوگ مُجھے لے جاؤ لیکن انجلی کو چھوڑ دو ،اسے پنڈت جی کے پاس لے جاؤ ،تم جو کہو گے میں وہ جُرم قبول کرلوں گا۔”

"واہ کیا محبت ہے ۔”

بھارتی ملٹری کورٹ میں علی کو آتنک وادی ثابت کردیا گیا اور اُس نے بھی انجلی کی زندگی بچانے کی پاداش میں سارے الزام قبول کر لیے ۔اُس کے بعد علی پر کیا کیا ظُلم ہوئے وہ قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔ پانچ سال کے مُسلسل ٹارچر کے بعد کسی افسر کو اُس پر رحم آگیا اور اُسے وادی کے عام جیل میں مُنتقل کردیا گیا ۔

ایک دن جیل میں علی کی مُلاقات ایک مُجاہد سے ہوئی اور پھر علی نے مُجاہد کے ساتھ مل کر ایک سُرنگ بنائی اور دونوں جیل سے فرار ہوگئے ۔ اُس کے بعد جموں کشمیر کی سنگلاخ وادیوں میں جب بھی بھارتی سینا کاکوئی قافلہ گُزرتاہے تو ایک بارود پھٹتا ہے اور قافلے کے قافلے جہنم واصل ہوجاتے ہیں ۔ آج تک کسی کو نہیں پتہ کہ بارود کب اور کہاں سے آتا ہے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.